۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
نشست علمی

حوزہ/ قم المقدسہ میں امام خامنہ ای کے قرآنی افکار کی بین الاقوامی کانفرنس کے منتظمین اور جامعہ روحانیت بلتستان کے تحت، قلم کی مادی اور معنوی برکتیں رہبرِ معظم کے قرآنی نظریات کی روشنی میں، کے عنوان سے ایک علمی نشست کا اہتمام ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں امام خامنہ ای کے قرآنی افکار کی بین الاقوامی کانفرنس کے منتظمین اور جامعہ روحانیت بلتستان کے تحت، قلم کی مادی اور معنوی برکتیں رہبرِ معظم کے قرآنی نظریات کی روشنی میں، کے عنوان سے ایک علمی نشست کا اہتمام ہوا، جس میں طلباء کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔

قلم کا انسان کو علمی مرجعیت تک پہنچانے میں اہم کردار ہوتا ہے، ڈاکٹر یعقوب بشوی

تفصیلات کے مطابق، اس نشست میں امام خامنہ ای مدظلہ کے قرآنی افکار کی بین الاقوامی کانفرنس کے سربراہ استادِ حوزہ حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی، استادِ حوزہ حجت الاسلام شیخ فدا علی حلیمی اور نشست کے سٹیج سیکرٹری حجت الاسلام شیخ محسن عباس نے قلم کی اہمیت اور اس کے معنوی اور مادی افادیت پر تفصیلی گفتگو کی۔

حجت الاسلام شیخ محسن نے، امام خامنہ ای مدظلہ کے قرآنی افکار کے موضوع پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا تعارف کیا اور کہا کہ یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی ایک منفرد کانفرنس ہے، جس میں بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک سے اہل قلم اور محقق حضرات شرکت کر رہے ہیں اور خوشی اور فخر کی بات یه ہے کہ اس کانفرنس کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ فخر بلتستان حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی ہیں۔ ڈاکٹر بشوی کی علمی شخصیت سے اس کانفرنس کے علاؤہ، انقلابِ اسلامی کے دوسرے مرحلے کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں بھی استفاده کیا ہے۔

حجت الاسلام محسن عباس نے سوال وجواب کے سلسلے کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر بشوی سے، قرآن مجید میں قلم کی اہمیت کے بارے میں سوال کیا۔

قلم کا انسان کو علمی مرجعیت تک پہنچانے میں اہم کردار ہوتا ہے، ڈاکٹر یعقوب بشوی

ڈاکٹر بشوی نے مذکورہ سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم میں قلم کی عظمت اور اہمیت کا اندازه اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سوروں میں قلم کا ذکر آیا ہے پہلا سورۂ علق ہے 5 آیات پہلی وحی کی نازل ہوئی ہیں اس میں سے 3 آیتیں، قلم سے متعلق ہیں اسی طرح ایک سوره کا نام ہی سورۂ قلم ہے اس میں قلم سے متعلق 3 قسمیں ہیں، البتہ دوسری آیات میں کتابت سے متعلق جو دستورات ہیں ان کا رابطہ بھی قلم سے ہے۔

سؤال یہ ہے کیوں قرآن مجید قلم کو اتنی اہمیت دے رہا ہے؟

قلم اول مخلوق ہے اور یہ ماضی کو مستقبل سے ملانے کا ایک اہم وسیلہ ہے قلم تمدن اور تہذیب کو وجود میں لاتا ہے قلم کے بغیر انسان ترقی نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید پہلی وحی میں صفات ربوبیت اور اکرمیت سے قلم کو جوڑتا ہے اور ایک بلندی قلم کو عطا فرماتا ہے اقرا و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم،قلم کا کمال مالایعلم کو يعلم بنانا اور صاحب قلم کو مرجعیت علمی تک لیکر جانا ہے اور اگر کوئی کسی بهی موضوع میں قلم اور تحریر کے ذریعہ مرجعیت علمی تک نہ جاسکے اور اکتشاف علمی اور تخلیق علم نہ کرسکے اور اسی طرح کسی موضوع پر اپنا نظریہ پیش نہ کرسکے تو وه تحریر جمع آوری ہے اور وه تحریر، تحقیق کا پہلا مرحلہ ہے اور صاحب قلم، محقق نہیں کہلاتے ہیں اسی طرح بعض لوگ دوسروں کی تحریروں میں تقلب کرکےاپنا نام لکھ کر راتوں رات محقق بنتے ہیں در حقیقت یه عمل، علمی چوری ہے اور جرم بھی ہے۔ تحقیق کرنا نہایت طاقت فرسا عمل ہے، لیکن اس کا نتیجہ بہت میٹھا ہوتا ہے۔ صاحب قلم کو الله، لایعلمون سے یعلمون تک لیکر جاتا ہے اور اس میں الله کی صفت علم کے ساتھ، ربوبیت اور اکرمیت کی صفات بھی آجاتی ہیں۔ صفت اکرمیت، جود و بخشش کا مظہر، جبکہ صفات ربوبیت، رشد و تربیت کا مظہر ہے۔ قلم، بخشش، عطا، کمال یابی اور پرورش معنوی کے موجوں کا نام ہے۔قرآن پہلی وحی میں تعلیمی اور تحقیقی نظام کا پورا نقشہ پیش کر رہا ہے۔

اسی طرح ایک سوره قلم کے نام پر اترا ہے اور یہی امر قلم کی عظمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ الله کو قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن قرآن کریم میں بعض چیزوں کی قسم موجود ہے در حقیقت یہ چیزیں مظاہر قدرت ہیں۔ ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ،دوات کی قسم جو سهولت کار اور مقدمه ساز ہے قلم کے لیےقلم کو لکھنا ہے اور دوات سیاهی کے ذریعه قلم کو موقع فراهم کرتی ہے اس لیےیه مقدس ہے اور الله اس کی قسم کھاتا ہے اسی طرح خود قلم کی قلم جو تحریر کو وجود ديتا ہے اور ایک ہی جنبش سے قوموں کے مقدر اور قسمت کا فیصلہ کرتاہے اور اسی طرح تحریر کی بهی قسم کها رها ہے چونکہ یہ قلم کے لیے وسیلہ اور ابزار ہے۔ قرآن کی نگاه میں جب تک زمانہ رہے گا قلم کا کردار بهی کم نہ ہوگا بلکہ اس کی اہمیت میں اور زیاده اضافہ ہوگا۔

فلسطین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے کہا کہ جس طرح رہبرِ معظم انقلاب نے فرمایا ہے کہ فلسطین آزاد هوگا۔ میں بھی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ فلسطین الله کی قسم آزاد ہوگا۔ آج حزب‌الله اور حماس نے دنيا کے سپرپاورز کی ناک میں دم کرکے رکھا ہے اور ان کے غرور کو خاک میں ملایا ہے۔ ہمیں نقصان ہماری محدود سوچ دیتی ہے بعض لوگ گاوں کی فکر لیکر 20سال حوزه علمیه میں رہ کر بهی اسی فکر کے ساتھ واپس گاؤں پلٹ جاتے ہیں یہ افسوس کا مقام ہے ہم عالمی مدیریت اور جہانی حکومت قائم کرنے جا رہے ہیں. آج آپ کا مخاطب ایک گاؤں، علاقہ، صوبہ یہاں تک کہ ملک بهی نہیں ہے، بلکہ 6 عرب انسانوں کی ہدایت کا مسئلہ ہے آج سوشل میڈیا کے ذریعے سے آپ اپنی آواز دنيا میں پہنچا سکتے ہیں۔ یاد رکھیں تمام کمالات اور عروج کے پیچھے قلم کا کردار ہے۔

اس نشست کے دوسرے خطیب استاد حوزه حجةالاسلام شیخ فدا علی حلیمی نے ڈاکٹر بشوی کی علمی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کے کردار کو دوسروں کے لیے قابلِ تقلید سمجھا اور ان کی توفیقات خیر میں مزید اضافہ کی دعا کے ساتھ، پروگرام کے ہوسٹ شیخ محسن عباس کے قرآن مجید کی روشنی میں قلم کی اہمیت سے متعلق قرآن سوال کے جواب میں بعض قرآنی آيات کو پیش کیا اور قلم کی عظمت پر تفصیلی بحث کی اور قلم کے بارے میں رہبرِ معظم انقلاب کے فرامین کو نیز نقل کیا۔ انہوں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی کے فرامین کی روشنی میں کہا کہ اہل قلم کو سطحی مسائل میں الجھے بغیر معاشرے کے اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور قلمی خیانت سے بچنے کی ضرورت پر زور دیا۔ شیخ فدا علی حلیمی نے حوزه علمیہ میں قلم کی مہجوریت کا تذکرہ کیا اور قلم کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے پر بھی زور دیا۔

حجت الاسلام محسن عباس نے قلم کی اہمیت حدیث کی روشنی سے متعلق دوسرا سوال ڈاکٹر بشوی سے کیا۔

ڈاکٹر یعقوب بشوی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح استاد حلیمی نے رہبرِ معظم انقلاب کے فرمان پر گفتگو کی۔ قلم کو چلانے کا مقصد کیا ہے؟اس بارے میں رہبرِ معظم انقلاب فرماتے ہیں: قلم کو دو مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیئے پہلا مقصد، علمی محافل میں حاضر ہونا اور علمی مرجعیت، جبکہ دوسرا مقصد، روز مرہ کے مسائل کی تشخیص اور ان پر لکھنا ضروری ہے۔

قلم اور تحریر سے متعلق بہت سی حدیثیں موجود ہیں اس کی اہمیت کے بارے میں یہ حدیث کافی ہے کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی الله علیه وآله وسلّم نے فرمایا: " مَن كَتَبَ عَنِّي عِلما أو حَديثا لم يَزَلْ يُكتَبْ لَهُ الأجرُ ما بَقِيَ ذلكَ العِلمُ و الحَديثُ "؛

جو بهی مجھ سے کوئی علم یا کوئی حدیث لکھے تو جب تک وه علم یا حدیث باقی ہے اس کے لیے اجر و ثواب ملتا رہے گا۔

کس قدر قلم کی برکت ہے اس حدیث سے اندازه لگایا جاسکتا ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں پیغمبر رحمت صلی الله علیه وآله وسلّم نے ارشاد فرمایا:کس قدر قلم کی برکت ہے اس حدیث سے اندازه لگایا جاسکتا ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں پیغمبر رحمت صلی الله علیه وآله وسلّم نے ارشاد فرمایا:قال رسول الله(صلی الله علیه و): المؤمنُ إذا ماتَ وتَرَکَ وَرَقةً واحِدَةً علَیها عِلمٌ تَکونُ تِلکَ الوَرَقةُ یَومَ القِیامَةِ سِترا فیما بَینَهُ وبَینَ النارِ ، وأعطاهُ اللّه‏ تبارکَ وتعالى بکُلِّ حَرفٍ مَکتوبٍ علَیها مَدینَةً أوسَعَ مِن الدنیا سَبعَ مَرّاتٍ ؛ جب مؤمن مرجائےاور ایک ہی ورقه وه چھوڑے جاتاهے جس پر کوئی علم لکها هوا هے تو وهی ورقه قیامت کےدن اس شخص کے اور آگ کے درمیان میں پرده هوگا اور الله تعالی هر اس حرف کے بدلے جو اس پر لکها هےدنیا سےسات گنا وسیع شهر اس کو عطا فرمائےگا.

اسی طرح ایک اور حدیث میں امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام فرماتے ہیں: لا سُنَّةَ أَفضَلُ مِنَ التَّحقيق؛

کوئی سنت، کوئی راه تحقیق سےافضل نہیں ہے۔ ان احادیث سےپته چلتا هےکه که قلم اور تحریر کی کیا اهمیت هے .تمام مادی اور معنوی ترقی قلم کی برکات هیں۔قلم عزت دیتاهے تمام کمالات اور ترقی کا سرچشمه قلم اور تحریر هے.یہاں مجھےعلامه اقبال کا شعر یاد اتاهےکه جس میں اقبال کہتے ہیں:

مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے

شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر

میں اقبال کےاس مصرع میں ترمیم کرنا چاہتا ہوں :مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے

شمشیر و قلم اوّل، طاؤس و رباب آخر

شمشیر جسم کو کاٹے گی، لیکن قلم، غلط اور منحرف فکروں کو ختم کر دے گا۔

قلمی طاقت ہی حقیقی طاقت ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلّم نے فرمایا العلم سلطان، بادشاہت علم کی ہی ہے اور لوگوں کی حکومت کچھ دنوں یا سالوں کی ہے، لیکن قلم کی حکومت، دائمی اور جاویدان ہے۔

نشست کے سٹیج سیکرٹری حجةالاسلام شیخ محسن عباس نے حجةالاسلام شیخ فدا حلیمی سے قلم کی اہمیت حدیث کی روشنی میں، سے متعلق سوال کیا۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ فدا علی حلیمی نے بعض احادیث کا حوالہ دیا اور کہا حدیث میں ہے مداد العلما افضل من الدما الشهدا، علماء کے قلم کی سیاہی، شہید کے خون سے افضل ہے اور اسی طرح قیامت کے دن قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی بھاری ہو جائے گی۔

آخر میں دعائے امام زمانہ عجل الله تعالی فرجه الشریف سے نشست کا اختتام ہوا۔

کانفرنس کے بین الاقوامی انتظامی امور کے سربراہ شیخ خادم جاوید نے نیز مقالہ نویسی کے حوالے سے کچھ نکات پیش کئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .